خود اعتمادی - Day 6

ہماری زمین، ہماری ثقافت۔ جتنا بھی کیوں دور چلے جاؤ، تم اپنی جڑوں سے دور نہیں ہو سکتے۔

تمہاری جڑیں ہی تو تمہیں اونچائی پہ لے کر جا سکتی ہیں۔ کبھی کسی اونچے درخت کو بےجڑ دیکھا ہے؟

میں اپنی زمین کے ساتھ رشتہ دوبارہ سے بنانا چاہتی تھی۔ اس زمین کی زبان کو ایک باشندے کی طرح

بولنا چاہتی تھی، اور اب بھی یہ خواہش میرے دل میں رجی بسی ہوئی ہے۔ خوبصورتی کی بات یہ ہے کہ

اس زمین کی ایک نہیں، کئی زبانیں ہیں، اور اسی وجہ سے میں پیدائش سے لے کر اب تک ایک نہیں، دو

نہیں، بلکہ تین زبانیں بول سکتی ہوں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری ثقافت جتنی بھی پرانی

اور ذرخیز ہے، اتنی ہی دنیا اس سے ناآشنا ہے۔

میں جب امریکہ میں رہتی تھی، مجھے یہ احساس ہوا کہ پوری دنیا اپنی ثقافت اور تہذیب کو بھلا کر

ان کی ثقافت کو اپنانا چاہتی تھی۔ ایسا کیوں تھا، میں سمجھ نہیں سکی تھی۔ وہاں رہ کر میرے دل

میں یہ التجا بڑی شدت سے اجاگر ہو گئ تھی کہ میں دنیا کو اپنے ملک کی خوبصورتی دکھا سکوں۔لیکن

جب میں یہ خواب لے کر اپنے ملک واپس آئی، مجھے افسوس کے ساتھ یہ معلوم ہوا کہ یہاں بھی لوگ

اپنی ثقافت کو بھلانے کے چکر میں ہیں۔ انہیں بھی اپنی ثقافت کی قدر نہیں تھی۔ اب میں ان تمام

احساسات کو ایک نظم کی شکل میں بیان کرنا چاہتی ہوں:

لوٹ آئے پاکستان، باندھ کر اپنا سارا سامان

انجان ملک یہ میرا، اب رہ چکا ہے ویران

لوٹ کر آئی تو بولے، تم نہیں ہو یہاں کی،

تم تو ہو بس نادان

کیوں سچ نہ بولتی، کہتے یہ ملک نہیں ہے سچوں کا،

او بے وقوف پٹھان!

پورا سال دیں گے یہ دھوکے پہ دھوکہ،

لیکن جب بات آئی گی عورت پہ، تو عرض کریں گے یہ قرآن

رمضان میں مسلمان،

اور عید کے بعد ڈھیٹ حیوان

کیوں کہتے ہو پردا کرو،

کیا میں بھی نہیں ایک انسان؟

اپنی ذات سے ہوں میں وابستہ،

راہِ راست پر کیوں بلاتے ہو مجھے شیطان؟

جیب میں پیسہ ڈال کر سکھاؤ گے مجھے تم شرم؟

اس زمیں کی قدر ہی نہیں، کیوں کرتے ہو تم گند؟

صفائی نصف ایمان ہے،

پھر بھی لڑنا ہے صفائی ہی سے تمہے جنگ؟

دنیا کے میدان میں اگر جیتنا ہے تو دل سے گلے ملو،

مت کرو ہمیں بے رنگ

آزادی نہیں تمہے حاصل تو کیا،

آزادی کی خواہش کا اظہار تو کرو

بہتر جینے کی ہے تمنّا تو لڑ کر بات نہ کرو ،

دوسرے انسان کی بات ختم کرنے کا انتظار توکرو

آؤ بات کرتے ہیں عروج پہ ،

چھوڑو یہ باتیں زوال کی

پڑھو میرے ساتھ ادب ،

اور فلسفے اس ذرخیز خاک کی

آؤ روشن کریں روایتیں اس زمینِ پاک کی

تاریکی کے بعد روشنی بھی تو ہے

میرے ہم وطن، کوشش نام کی ایک چیز بھی تو ہے

رہتے ہو تم ہزاروں جھوٹ اور منافقت کے ساتھ

سوال جب اٹھایا جائے گا خود اعتمادی پہ

تب آئے گا تمہے خیال؟

سمندر، صحرا، پہاڑ اور جنگلات سے نوازا ہے اس زمین کو رب نے

ہر فن اور موسیقی کا اس علاقے میں ہے کوئی اور ہی معیار

رشتے دار ہیں ڈھیروں ڈھیر، جو کرتے ہیں اظہارِپیار

یہاں تنہائ میں بھی دوست نہیں چھوڑتے پریشان

توکّل سے ہیں آشنا اس ملک کے انسان

نہیں دیکھا میں نے مغرب میں ایسا پکّا ایمان

پھر ڈرتے ہو کس لئے، نوبادیاتی سے الجھتے ہو، اس لئے؟

سفید ہو یا بے رنگ، اپنی ہی زبان سے بھاگتے ہو تم کس لئے؟

خود کو جاننے سے انکار ہے تو بھول جاؤ یہ سلسلے

اپنی ہی ذات کو کرو گے بےڈھنگ

تو عزت ملے گی آخر کس سے بے؟

- ندا قسم خان


You'll only receive email when they publish something new.

More from Nida Q Khan • ندا قاسم خان
All posts